Tehzeeb Hafi Poetry
Tehzeeb Hafi Poetry, he is a contemporary Urdu poet, evokes deep emotions in his poems, which resonate with today's audience. Its captivating themes of love, longing and social reflection captivate readers. Hafi modern take on traditional Urdu poetry was well received, establishing him as a respected voice among fans.
میں جس کے ساتھ کئی دن گزار آیا ہوں
وہ میرے ساتھ بسر رات کیوں نہیں کرتا۔
Main jis ke sath kai Din guzaar aaya hon
Woh mery sath basar Raat kiyun nahe krta.
Here you can read and copy his best shayari, also share it on Instagram, Whatsapp, Twitter and Facebook.
بس وہ اتنا کہے مجھے تم سے
اور پھر کال منقطع ہو جائے۔
Bass wo itna kahe '''mujhe tum se..
Aur phir call monqatah ho jaye.
اگر کبھی تیرے نام پر جنگ ہوگئی تو
ہم ایسے بزدل بھی پہلی صف میں کھڑے ملیں گے۔
Agar kabhi tery naam pr jang ho gai tou
Hum aisy buzdil bhe pehli saff mein khary milein gy.
وہ تصویر بنا لائے ہماری
یعنی ہم اب دیوار پر لگنے والے ہیں۔
Wo tasveer bana laye hamari
Yehni hum ab dewar par lagny waly hain.
وہ جس کی چھاؤں میں پچیس سال گزرے ہیں
وہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا۔
Wo jis ke chahon mein pachis saal guzry hain
Wo pairr mujh sy koi baat kiyun nahe karta.
سنا ہے اب وہ آنکھیں اور کسی کو رو رہی ہیں۔
Suna hai ab wo ankhein kisi aur ko ro rahi hain.
Tehzeeb Hafi Poetry in Urdu
تو جس طرح چوم کر ہمیں دیکھتا ہے حافی
ہم ایک دن تیرے بازوؤں میں مرے ملیں گے۔
Tu jis tarah chook kr hamain deikhta ha hafi
Hum aik din tery bazuon me marry milein gy.
تجھ کو پانے میں مسئلہ یہ ہے
تجھ کو کھونے کے وسوسے رہیں گے۔
Tujhko paany mein masla yeh hai
Tujhko khony k waswase rahein gy.
میری نقلیں اتارنے لگا ہے
آئینے کا بتاؤ کیا کیا جائے۔
Meri naqlein utarny laga hai
Aayeny ka batao kiya keya jaye.
دل بھی کیسا درخت ہے حافی
جو تیری یاد سے ہرا ہو جائے۔
Dil bhe kesa darakht hai Hafi
Jo teri yaad se harra ho jaye.
اتنی گرہیں لگی ہیں اس دل پر
کوئی کھولے تو کھولتا رہ جائے۔
Itni girhain lage hain is dil par
Koi kholy tou kholta reh jaye.
میں ان دنوں ہوں خود سے اتنا بے خبر
میں بجھ چکا ہوں اور مجھے پتا نہیں۔
Main in dino hun khud se itna bekhabar
Main bujh chuka hun aur mujhy pata nahi.
بن دیکھے اسکی تصویر بنا لوں گا
آج تو میں نے اسکو اتنا دیکھا ہے۔
Bin dekhy uski tasveer bana lun ga
Aaj tou main ny usko itna deikha ha.
کون آئے گا بھلا میری عیادت کے لیے
بس اسی خوف سے بیمار نہیں ہوتا میں۔
Kon aaye ga bhala meri eyadat k liya
Bas isi khoof sy bemar nahe hota main.
Tehzeeb Hafi Shayari
تنہائی میں خود سے باتیں کرنی ہیں
میرے منہ میں جو آئے گا بولوں گا۔
Tanhai mein khud sy batein karne hain
Mery muhn mein jo aaye ga bolun ga.
یہ میرا پہلا رمضان تھا اس کے بغیر
مت پوچھو کس منہ سے روزے کھولے ہیں۔
Ye mera pehla ramadan tha us k baghair
Matt pocho kis muhn sy rozay kholy hain.
باہرآنے کی بھی سکت نہیں ہم میں
تو نے کس موسم میں پنجرے کھولے ہیں۔
Bahir aane ki bhe sakat nahe hum mein
Tu ny kis mosam mein pinjry kholay hain.
اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ
اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا۔
Itna metha tha wo ghusay bhara lehja mat pooch
Us ne jisko bhe jany ka kaha baith gaya.
تیری طرف چلے تو عمر کٹ گئی
یہ اور بات راستہ کٹا نہیں
Teri taraf chaly tou umar kat gaye
Ye aur baat raasta katta nahe
میں اسکو ہر روز بس یہی ایک جھوٹ سننے کو فون کرتا
سنو یہاں کوئی مسلہ ہے تمہاری آواز کٹ رہی ہے۔
Main usko harr roz bas yehi aik jhoot sun'ne ko phone karta
“Suno yahan koi masla hai tumhari awaz katt rahi hai.
ایک تیرا ہجر دائمی ہے مجھے
ورنہ ہر چیز عارضی ہے مجھے۔
Ek tera hijar dayemi hai mujhy
Warna har cheez aarzi hai mujhy.
Best Tehzeeb Hafi Shayri
ساری عمر اس خواہش میں گزری ہے
دستک ہو گی اور دروازہ کھولوں گا۔
Sari umer is khwahish mein guzri hai
Dastak hogi aur darwaza kholun ga.
تجھ میں یہ عیب ہے کہ خوبی ہے
جو تجھے دیکھ لے وہ تیرا ہو جائے۔
Tujh mein ye aib ha k khobi hai
Jo tujhe deikh ly woh tera ho jaye.
خود ہی میں خود کو لکھ رہا ہوں خط
اور میں اپنا نامہ بار بھی ہوں۔
Khud he main khud ko likh raha hun khat
aur main apna nama-bar bhi hun.
فریب دے کے تیرا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کر کشتی نہیں بناؤں گا۔
Faraib de ke tera jism jeet lun lekin
Main paid kaat ke kashti nahe banaunga.
داستاں ہوں میں اِک طویل مگر
تو جو سُن لے تو مختصر بھی ہوں۔
Dastan hu main ek tawel magar
Tu jo sun le to mukhtasar bhi hu.
Tahzeeb Hafi Poetry in Urdu
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا۔
Pairh mujhe hasrat se deikha karty thy
Main jungle mein pani laya karta tha.
محاذ عشق سے کب کون بچ کے نکلا ہے
تو بچ گیا ہے تو خیرات کیوں نہیں کرتا۔
Mahaz-e-ishq se kab kon bach k nikla hai
Tu bach gaya hai to Khairat kiyun nahe karta.
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی گیا
تو اُن کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا۔
Main dushmano se agr jang jeet bhi gaya
To un ki aurten qaidi nahe banaun ga.
تیرا چُپ رہنا میرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا
اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا۔
Tera chup rehna mery zehn mein kya baith gya
Itni aawazen tujhe deen k gala baith gaya.
تم چاہتے ہو تم سے بچھڑ کے بھی خوش رہوں
یعنی ہوا بھی چلتی رہے اور دیا جلے۔
Tum chahty ho tum sy bichad k bhe khush rahun
Yaani hawa bhi chalti rahy aur diya jalay.
ذہن سے یادوں کے لشکر جا چُکے
وہ میری محفل سے اُٹھ کر جا چُکے
میرا دِل بھی جیسے پاکستان ہے
سب حکومت کر کے باہر جا چُکے
Zeh sy yaadon k lashkar ja chuky
Wo meri mehfil sy uth kr ja chuky
Mera dik bhe jaisy Pakistan hai
Sub hakomat kar k bahir ja chuky.
Tehzeeb Hafi Ghazals
Here we upload some collection of Hafi Ghazal. Let's enjoy and share with your loved ones.
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
یہ ایک بات سمجھنے میں رات ہو گئی ہے
میں اس سے جیت گیا ہوں کہ مات ہو گئی ہے
میں اب کے سال پرندوں کا دن مناؤں گا
مری قریب کے جنگل سے بات ہو گئی ہے
بچھڑ کے تجھ سے نہ خوش رہ سکوں گا سوچا تھا
تری جدائی ہی وجہ نشاط ہو گئی ہے
بدن میں ایک طرف دن طلوع میں نے کیا
بدن کے دوسرے حصے میں رات ہو گئی ہے
میں جنگلوں کی طرف چل پڑا ہوں چھوڑ کے گھر
یہ کیا کہ گھر کی اداسی بھی ساتھ ہو گئی ہے
رہے گا یاد مدینے سے واپسی کا سفر
میں نظم لکھنے لگا تھا کہ نعت ہو گئی ہے
۔
اشک ضائع ہو رہے تھے دیکھ کر روتا نہ تھا
اشک ضائع ہو رہے تھے دیکھ کر روتا نہ تھا
جس جگہ بنتا تھا رونا میں ادھر روتا نہ تھا
صرف تیری چپ نے میرے گال گیلے کر دئے
میں تو وہ ہوں جو کسی کی موت پر روتا نہ تھا
مجھ پہ کتنے سانحے گزرے پر ان آنکھوں کو کیا
میرا دکھ یہ ہے کہ میرا ہم سفر روتا نہ تھا
میں نے اس کے وصل میں بھی ہجر کاٹا ہے کہیں
وہ مرے کاندھے پہ رکھ لیتا تھا سر روتا نہ تھا
پیار تو پہلے بھی اس سے تھا مگر اتنا نہیں
تب میں اس کو چھو تو لیتا تھا مگر روتا نہ تھا
گریہ و زاری کو بھی اک خاص موسم چاہیے
میری آنکھیں دیکھ لو میں وقت پر روتا نہ تھا
۔
مری آنکھ سے ترا غم چھلک تو نہیں گیا
مری آنکھ سے ترا غم چھلک تو نہیں گیا
تجھے ڈھونڈھ کر کہیں میں بھٹک تو نہیں گیا
تری بدعا کا اثر ہوا بھی تو فائدہ
مرے ماند پڑنے سے تُو چمک تو نہیں گیا
بڑا پُر فریب ہے شہد و شِیر کا ذائقہ
مگر ان لبوں سے ترا نمک تو نہیں گیا
ترے جسم سے مری گفتگو رہی رات بھر
میں کہیں نشے میں زیادہ بَک تو نہیں گیا
یہ جو اتنے پیار سے دیکھتا ہے تُو آج کل
مرے دوست تُو کہیں مجھ سے تھک تو نہیں گیا
۔
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
پرائی آگ پہ روٹی نہیں بناؤں گا
میں بھیگ جاؤں گا چھتری نہیں بناؤں گا
اگر خدا نے بنانے کا اختیار دیا
علم بناؤں گا برچھی نہیں بناؤں گا
فریب دے کے ترا جسم جیت لوں لیکن
میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوں
نئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
میں دشمنوں سے اگر جنگ جیت بھی جاؤں
تو ان کی عورتیں قیدی نہیں بناؤں گا
تمہیں پتا تو چلے بے زبان چیز کا دکھ
میں اب چراغ کی لو ہی نہیں بناؤں گا
میں ایک فلم بناؤں گا اپنے ثروتؔ پر
اور اس میں ریل کی پٹری نہیں بناؤں گا
۔
جانے والے سے رابطہ رہ جائے
جانے والے سے رابطہ رہ جائے
گھر کی دیوار پر دیا رہ جائے
اک نظر جو بھی دیکھ لے تجھ کو
وہ ترے خواب دیکھتا رہ جائے
اتنی گرہیں لگی ہیں اس دل پر
کوئی کھولے تو کھولتا رہ جائے
کوئی کمرے میں آگ تاپتا ہو
کوئی بارش میں بھیگتا رہ جائے
نیند ایسی کہ رات کم پڑ جائے
خواب ایسا کہ منہ کھلا رہ جائے
جھیل سیف الملوک پر جاؤں
اور کمرے میں کیمرہ رہ جائے
۔
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
جب اس کی تصویر بنایا کرتا تھا
کمرا رنگوں سے بھر جایا کرتا تھا
پیڑ مجھے حسرت سے دیکھا کرتے تھے
میں جنگل میں پانی لایا کرتا تھا
تھک جاتا تھا بادل سایہ کرتے کرتے
اور پھر میں بادل پہ سایہ کرتا تھا
بیٹھا رہتا تھا ساحل پہ سارا دن
دریا مجھ سے جان چھڑایا کرتا تھا
بنت صحرا روٹھا کرتی تھی مجھ سے
میں صحرا سے ریت چرایا کرتا تھا
۔
آج جن جھیلوں کا بس کاغذ میں نقشہ رہ گیا
آج جن جھیلوں کا بس کاغذ میں نقشہ رہ گیا
ایک مدت تک میں اُن آنکھوں سے بہتا رہ گیا
میں اُسے ناقابل ِ برداشت سمجھا تھا مگر
وہ مرے دل میں رہا اور اچھا خاصہ رہ گیا
وہ جو آدھے تھے تجھے مل کر مکمل ہو گئے
جو مکمل تھا وہ تیرے غم میں آدھا رہ گیا
جسم کی چادر پہ راتیں پھیلتی تو تھیں مگر
میرے کاندھے پر ترا بوسہ ادھورا رہ گیا
وہ تبسم کا تبرک بانٹتا تھا اور میں
چیختا تھا اے سخی پھر میرا حصہ رہ گیا
آج کا دن سال کا سب سے بڑا دن تھا تو پھر
جو ترے پہلو میں لیٹا تھا وہ اچھا رہ گیا
۔
چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں
چیختے ہیں در و دیوار نہیں ہوتا میں
آنکھ کھلنے پہ بھی بیدار نہیں ہوتا میں
خواب کرنا ہو سفر کرنا ہو یا رونا ہو
مجھ میں خوبی ہے بیزار نہیں ہوتا میں
اب بھلا اپنے لیے بننا سنورنا کیسا
خود سے ملنا ہو تو تیار نہیں ہوتا میں
کون آئے گا بھلا میری عیادت کے لئے
بس اسی خوف سے بیمار نہیں ہوتا میں
منزل عشق پہ نکلا تو کہا رستے نے
ہر کسی کے لئے ہموار نہیں ہوتا میں
تیری تصویر سے تسکین نہیں ہوتی مجھے
تیری آواز سے سرشار نہیں ہوتا میں
لوگ کہتے ہیں میں بارش کی طرح ہوں حافیؔ
اکثر اوقات لگاتار نہیں ہوتا میں
۔