Mohsin Naqvi Poetry in Urdu
Mohsin Naqvi poetry in Urdu, Mohsin Raza Naqvi is a unique and deep literary gem. His verses beautifully blend emotion and intellect, creating a mesmerizing tapestry of words. Naqvi's poetry delves deep into the complexities of life, exploring the realms of love, longing, spirituality and human existence. With a delicate balance of pictorial and lyrical beauty, his words touch the depths of the soul and leave a lasting impression on the reader.
دکھ ہی ایسا تھا کہ محسنؔ ہوا گم سم ورنہ
غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا۔
جس کو طوفان سے الجھنے کی عادت ہو محسن
ایسی کشتی کو سمندر بھی دعا دیتا ہے۔
کل تھکے ہارے پرندوں نے نصیحت کی مجھے
شام ڈھل جائے تو محسن تم بھی گھر جایا کرو۔
تمہیں خبر ہی نہیں کے کوئی ٹوٹ گیا
محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے۔
الجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکش مسلسل محسن
وہ آ بسا ہے مجھ میں یا میں اس میں کھو گیا ہوں۔
ملا تو اور بھی تقسیم کر گیا مجھ کو
سمیٹنا تھی جسے میری کرچیاں محسن۔
انکار کی سی لذت ، اقرار میں کہاں ہے
بڑھتا ہے عشق محسن ان کی نہیں نہیں سے۔
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں كے یہ کتبے بھی پڑھا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی كے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر۔
Mohsin Naqvi Sad Poetry 2 lines
جب چلے تو تنہا تھے سفر میں محسن
پِھر تم ملے غم ملے تنہائی ملی قافلہ سا بن گیا۔
تیرے قریب بھی رہ کر تجھے تلاش کروں
محبتوں میں میری بد حواسیاں نہ گئیں۔
عجیب طرح سے دونوں ناكام ہوئے محسن
وہ مجھے چاہ نہ سکا اور میں اسے بھلا نہ سکا۔
یاد کر كے مجھے تکلیف ہی ہوتی ہو گی
اک قصہ ہوں پرانا سا بھلا دے مجھ کو۔
ہم دونوں کا دکھ تھا ایک جیسا
احساس مگر جدا جدا تھا۔
شمار اُسکی سخاوت کا کیا کریں کہ وہ شخص
چراغ بانٹتا پھرِتا ہے چھین کر آنکھیں۔
اے زندگی تو ہی بتا کیسے تجھ سے پیار کروں میں
تیری ہر سانس میری عمر گھٹا دیتی ہے۔
کس لیے محسن کسی بے مہر کو اپنا کہوں
دل کے شیشے کو کسی پتّھر سے کیوں ٹکراؤں میں۔
عکس و آئینہ میں اب ربط ہو کیا تیرے بعد
ہم تو پھرتے ہیں خود اپنے سے خفا تیرے بعد۔
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر۔
Mohsin Naqvi Romantic Poetry
ایک قیامت کی خراشیں تیرے سر پہ سجیں
ایک محشر میرے اندر سے اٹھا تیرے بعد۔
یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن
کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے۔
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو۔
کتنے لہجوں کے غلافوں میں چھپاؤں تجھ کو
شہر والے مرا موضوع سخن جانتے ہیں۔
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے۔
صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو
کچھ سوالی بڑے خوددار ہوا کرتے ہیں۔
اب کے بارش میں تو یہ کارِ زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا۔
میں تیرے ملنے کو معجزہ کہہ رہا تھا لیکن
تیرے بچھڑنے کا سانحہ بھی کمال گزرا۔
Mohsin Naqvi Poetry
کہاں ملے گی مثال میری ستم گری کی
کہ میں گلابوں كے زخم کانٹوں سے سی رہا ہوں۔
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر۔
الجھا رہی ہے مجھ کو یہی کشمکش مسلسل محسن
وہ آبسا ہے مجھ میں یا میں اس میں کھو گیا ہوں۔
آتا ہے کون کون میرے غم کو بانٹنے
محسن تو میری موت کی افواہ اڑا کے دیکھ۔
ہَم سے بے وفائی کی انتہا کیا پوچھتے ہو محسن
وہ ہَم سے پیار سیکھتا رہا کسی اور كے لیے۔
اب یہ سوچا ہے اپنی ذات میں رہیں گے محسن
بہت دیکھ لیا لوگوں سے شناسائی کرکے۔
Mohsin Naqvi Ghazal
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ہر رستہ سنسان ہوا
اپنا کیا ہے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ہوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا
سوچ رہا ہوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ہوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ہوئیں
مفت میں ہم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ہوا
میرے حال پہ حیرت کیسی درد کے تنہا موسم میں
پتھر بھی رو پڑتے ہیں انسان تو پھر انسان ہوا
اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ہوا
کل تک جس کے گرد تھا رقصاں اک انبوہ ستاروں کا
آج اسی کو تنہا پا کر میں تو بہت حیران ہوا
اس کے زخم چھپا کر رکھیے خود اس شخص کی نظروں سے
اس سے کیسا شکوہ کیجے وہ تو ابھی نادان ہوا
جن اشکوں کی پھیکی لو کو ہم بے کار سمجھتے تھے
ان اشکوں سے کتنا روشن اک تاریک مکان ہوا
یوں بھی کم آمیز تھا محسنؔ وہ اس شہر کے لوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ہوا۔
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
میں دل پہ جبر کروں گا تجھے بھلا دوں گا
مروں گا خود بھی تجھے بھی کڑی سزا دوں گا
یہ تیرگی مرے گھر کا ہی کیوں مقدر ہو
میں تیرے شہر کے سارے دیئے بجھا دوں گا
ہوا کا ہاتھ بٹاؤں گا ہر تباہی میں
ہرے شجر سے پرندے میں خود اڑا دوں گا
وفا کروں گا کسی سوگوار چہرے سے
پرانی قبر پہ کتبہ نیا سجا دوں گا
اسی خیال میں گزری ہے شام درد اکثر
کہ درد حد سے بڑھے گا تو مسکرا دوں گا
تو آسمان کی صورت ہے گر پڑے گا کبھی
زمیں ہوں میں بھی مگر تجھ کو آسرا دوں گا
بڑھا رہی ہیں مرے دکھ نشانیاں تیری
میں تیرے خط تری تصویر تک جلا دوں گا
بہت دنوں سے مرا دل اداس ہے محسنؔ
اس آئنے کو کوئی عکس اب نیا دوں گا۔
کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اداس لوگو
کہا تھا کِس نے، کہ مسکراؤ! اُداس لوگو
گُزر رہی ہیں گلی سے، پھر ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو ، دئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو
جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی ، سناؤ! اُداس لوگو
کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو، بھول جاؤ! اُداس لوگو
اُجاڑ جنگل ، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو
یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو
یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سناں، کوئی سر سجاؤ! اُداس لوگو
اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسن کو ڈھونڈ لاؤ! اُداس لوگو۔
ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد
ہجوم شہر سے ہٹ کر، حدود شہر کے بعد
وہ مسکرا کے ملے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
جس آنکھ میں کوئی چہرہ نہ کوئی عکس طلب
وہ آنکھ جل کے بجھے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
ہجوم درد میں کیا مسکرایئے کہ یہاں
خزاں میں پھول کھلے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟
ملے بغیر جو مجھ سے بچھڑ گیا محسن
وہ راستے میں رکے بھی تو کون دیکھتا ہے ؟۔
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
عجیب خوف مسلط تھا کل حویلی پر
لہو چراغ جلاتی رہی ہتھیلی پر
سنے گا کون مگر احتجاج خوشبو کا
کہ سانپ زہر چھڑکتا رہا چنبیلی پر
شب فراق مری آنکھ کو تھکن سے بچا
کہ نیند وار نہ کر دے تری سہیلی پر
وہ بے وفا تھا تو پھر اتنا مہرباں کیوں تھا
بچھڑ کے اس سے میں سوچوں اسی پہیلی پر
جلا نہ گھر کا اندھیرا چراغ سے محسنؔ
ستم نہ کر مری جاں اپنے یار بیلی پر۔
زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
زباں رکھتا ہوں لیکن چپ کھڑا ہوں
میں آوازوں کے بن میں گھر گیا ہوں
مرے گھر کا دریچہ پوچھتا ہے
میں سارا دن کہاں پھرتا رہا ہوں
مجھے میرے سوا سب لوگ سمجھیں
میں اپنے آپ سے کم بولتا ہوں
ستاروں سے حسد کی انتہا ہے
میں قبروں پر چراغاں کر رہا ہوں
سنبھل کر اب ہواؤں سے الجھنا
میں تجھ سے پیشتر بجھنے لگا ہوں
مری قربت سے کیوں خائف ہے دنیا
سمندر ہوں میں خود میں گونجتا ہوں
مجھے کب تک سمیٹے گا وہ محسنؔ
میں اندر سے بہت ٹوٹا ہوا ہوں۔
ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
ترے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے
مثال رنگ وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اک اداس دیا
ہوا کی راہ میں اک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مجھ کو ٹوٹ کے چاہے گا چھوڑ جائے گا
مجھے خبر تھی اسے یہ ہنر بھی آتا ہے
اجاڑ بن میں اترتا ہے ایک جگنو بھی
ہوا کے ساتھ کوئی ہم سفر بھی آتا ہے
وفا کی کون سی منزل پہ اس نے چھوڑا تھا
کہ وہ تو یاد ہمیں بھول کر بھی آتا ہے
جہاں لہو کے سمندر کی حد ٹھہرتی ہے
وہیں جزیرۂ لعل و گہر بھی آتا ہے
چلے جو ذکر فرشتوں کی پارسائی کا
تو زیر بحث مقام بشر بھی آتا ہے
ابھی سناں کو سنبھالے رہیں عدو میرے
کہ ان صفوں میں کہیں میرا سر بھی آتا ہے
کبھی کبھی مجھے ملنے بلندیوں سے کوئی
شعاع صبح کی صورت اتر بھی آتا ہے
اسی لیے میں کسی شب نہ سو سکا محسنؔ
وہ ماہتاب کبھی بام پر بھی آتا ہے۔
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی
میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی
اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی
مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص
حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا
ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی
سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں
شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی
تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید
سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی
محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل
درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی۔
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
بھڑکائیں مری پیاس کو اکثر تری آنکھیں
صحرا مرا چہرا ہے سمندر تری آنکھیں
پھر کون بھلا داد تبسم انہیں دے گا
روئیں گی بہت مجھ سے بچھڑ کر تری آنکھیں
خالی جو ہوئی شام غریباں کی ہتھیلی
کیا کیا نہ لٹاتی رہیں گوہر تیری آنکھیں
بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن
کھلتی ہیں بہت دل میں اتر کر تری آنکھیں
اب تک مری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا
بھیگی ہوئی اک شام کا منظر تری آنکھیں
ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں
پھر اوڑھ نہ لیں خواب کی چادر تری آنکھیں
میں سنگ صفت ایک ہی رستے میں کھڑا ہوں
شاید مجھے دیکھیں گی پلٹ کر تری آنکھیں
یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسنؔ
وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تری آنکھیں۔
You might also like :-
My Twitter account Fatima.